“ایک فرد ایک ووٹ” انتخابات میں رائے دہندگان کی جمہوری سیاسی برابری اور نمائندگی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ نعرہ 1880 کے آس پاس انگریزی زبان میں استعمال ہوا جب برطانوی ٹریڈ یونینسٹ جارج ہاویل نے سیاسی پمفلٹ میں “ایک شخص ایک ووٹ” کا جملہ استعمال کیا۔ 20 ویں صدی کے وسط سے آخر تک غیر آباد کاری کے دور اور قومی خودمختاری کی جدوجہد کے دوران، یہ نعرہ ترقی پذیر ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا ۔
پاکستان میں بھی 2002ء میں اقلیتی رائے دہندگان کو مخلوط طرز انتخاب میں ، “ایک فرد ایک ووٹ ” کے اصول کے تحت اپنے مقامی حلقوں کے نمائندوں کو رائے دینے کا حق دیا گیا جس کی بنیاد رائے دہندگان کی جمہوری سیاسی برابری کو یقینی بنانا تھا۔ اس کے ساتھ متناسب نمائند گی کے فارمولے پر اقلیتی نمائندوں کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا نمائندہ بننے کا نظام دیا گیا۔
اقلیتوں خصوصاً مسیحی سماجی سیاسی قیادت کو اس نظام پر تحفظات ہیں حالانکہ گزشتہ تین الیکشن میں اور موجودہ الیکشن میں ہزاروں اقلیتی قائدین نے مخلوط طرز انتخاب کے تحت الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی بمعہ فیس جمع کروائے اور ہزاروں نے مختلف سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ کے حصول کے لئے پارٹی فنڈ جمع کروایا ۔ہزاروں قائدین کے اعتماد کے بعد موجودہ الیکشن نظام پر اعتراض سمجھ سے بالا تر ہے۔
اس موضوع پہلا مدعا یہ اٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام میں اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی موثر نہیں ہے۔ اور یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ نمائندگی موثر نہ ہونے کی وجہ ، اقلیتی نمائندوں کا اقلیتوں رائے دہندگان سے رائے نہ لینا ہے ۔ پہلے تو اقلیتوں کی اصطلاح صرف مسیحیوں پر لاگو نہیں ہوتی بلکہ ہندو، سکھ اور دیگر مذہبی شناخت کا حامل قیادت کو بھی میسر ہے۔ باوجود اس کے یہ اعتراض صرف مسیحیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہےاس لئے ہم مختصراً جداگانہ انتخاب کے تحت حکومتی نمائندوں اور مخلوط انتخاب کے تحت حکومتی نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ اس اعتراض کی حقیقت کا ماضی کیا ہے؟
جداگانہ طرز انتخاب میں پارلیمنٹیرین اور متناسب نمائندگی کے ذریعے پارلیمنٹ کا حصہ بننے والے نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پانچ فیصد ملازمت کوٹہ، سینٹ میں نمائندگی، یوم اقلیت کا اعلان اور 2 فیصد تعلیمی کوٹہ ، لاہور اور فیصل آباد میں ماڈل ترقیاتی کاموں کے لئے وسائل کی فراہمی جیسی پالیسیاں اور اصلاحات اور قومی اسمبلی میں شہباز کلیمنٹ بھٹی، عامر نوید جیوا ، آسیہ ناصر اور جیمز اقبال کا کردار اسی طرح سینٹ میں کامران مائیکل نے اقلیتوں کے مسائل کو نمایاں حیثیت دلوانے کے لیے کئی تقاریر اور واک آوٹ کیے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں خلیل طاہر سندھو، اعجاز مسیح اورحبقوق گل نے قراردادوں اور قانون سازی میں خاطر خواہ کارکردگی دکھائی۔
جداگانہ انتخاب یا ووٹ کے ذریعے صوبائی یا قومی اسمبلی کا حصہ بننے والے نمائندوں کی کارکردگی پر پارلیمنٹ میں تقاریر، کچھ احتجاج، کئی ضلعوں میں سڑکوں ،کچھ سرکاری نوکریاں ،چرچوں اور زرعی نالوں کے کام ہوں گےجو کہ اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ حالانکہ ان کے پاس ووٹ کی طاقت کیساتھ ساتھ وفاقی پورٹ فولیو بھی تھے۔لیکن اگر موثر نمائندگی کا موازنہ کرنا ہو تو آپ دونوں ادوار کے نمائندوں کی کارکردگی دیکھ سکتے ہیں کہ کونسی قیادت موثر تھی۔
دوسرا مدعا ہے کہ اقلیتی رائے دہندگان کو رائے دینے کا حق نہیں مل رہا ۔ ایسے میں ہمیں دیکھنے پڑے گا ایک فرد ایک ووٹ کے اصول کا قانو ن رائے دہندگان کو زیادہ طاقتور بنا رہا ہے یا جداگانہ طرز انتخاب یا دوہرا ووٹ کا قانون۔مزید اقلیتی رائے دہندگان کی اہمیت( 1979 سے 2002 تک کےسیاسی نظام میں اور 2002 کے بعد کے نظام میں) کاموازنہ اس مدعے کو واضح کرنے کی دوسری دلیل ہے ۔
لہٰذا دیکھیں تو مخلوط طرز انتخاب میں متناسب نمائندگی کا نظام اور ایک فرد ایک ووٹ کا اصول ،رائے دہندگان اور اقلیتی نمائندوں کو موجودہ سیاسی عمل میں طاقتور بناتے ہیں ۔ بجائے جداگانہ طرز انتخاب یا دوہرا ووٹ کے حق ۔مزید دوہرے ووٹ یا جداگانہ طرز انتخاب کے ذریعے انتخاب کے نتیجے میں ہنددوں اور مسیحیوں کے علاوہ شاید دیگر اقلیتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہ بن پائیں۔ ایسے میں وہ نظام جو کسی کی حق تلفی کر رہا ہو وہ بہترین نظام کیسے ہو سکتا ہے؟لہٰذا الیکشن سسٹم میں تبدیلی کے خواہش مندوں کو تبدیلی کا وہ فارمولا دینا چاہیے جس پر تمام مذہبی اقلیتوں میں اتفاق رائے ضروری ہے۔
موجودہ الیکشن سسٹم پر اکثر اعتراض مسیحی سیاسی سماجی نمائندوں کے ذریعے سامنے آتا ہے حالانکہ موجودہ سیاسی نظام پاکستانی عورتوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں ہندو، مسیحی، سکھ ، پارسی ، بھائی اور احمدیوں کو حکومتی ایوانوں کا حصہ بننے کا حق دیتا ہے ۔ لہٰذا الیکشن سسٹم میں تبدیلی کا مطالبہ جب تک مسیحیوں کے علاوہ دیگر اقلیتی قیادت نہیں کرتی تو کیسے الیکشن سسٹم تبدیل ہو سکتا ہے؟ ہندو وں کے ایک قائد تو یہاں تک کہتے ہیں کہ متناسب نمائندگی کا دائر کا ر پارلیمنٹ کی 50فیصد نشستوں تک ہونا چاہیئے جس میں خواتین ، اقلیتوں کے علاوہ مزدوروں، کسانوں ، نوجوانوں ، ٹرانس جینڈرز اور معذوروں کا پارلیمنٹ کا حصہ بننا چاہیے۔
تیسرا مدعا جو ہونا چاہیے وہ ہے اقلیتی نشستوں میں اضافہ ہے، مگر مسیحیوں کے کچھ قائدین ،اقلیتو ں کے ہر سیاسی مطالبے کو الیکشن سسٹم میں تبدیلی سے مشروط کر کے سیاسی عمل کو جامد کرنے کی کوششوں پر کاربند ہے۔ جس کے نتائج الیکشن 2024میں تمام سیاسی جماعتوں کی ترجیحی لسٹوں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں جس میں ہنددوں اور سکھوں نے اس سسٹم پر عدم اعتماد کی بجائے تمام جماعتوں کے ذریعے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی یقینی بنا لی ہے۔
الیکشن سسٹم میں بہتری کا خیال عظیم تر ہے پر اس خیال یا جدوجہد کی بنیاد اجتماعی سیاسی ترقی پر منحصر ہونی چاہیے ۔ ایسے میں متناسب نمائندگی اور مخلوط طرز انتخاب کے سسٹم کے ساتھ ساتھ بہتری کی بات کرنی چاہیے، جس کی ایک مثال الیکشن ایکٹ 2017 میں موجود ہے، جس کےمطابق خواتین کی نمائندگی کو طاقت ور اور موثر بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کو خواتین کو مخصوص نشستوں کے ساتھ 5 فیصد جنرل سیٹوں پر ٹکٹ دینے کا پابند کیا گیا ہے ۔ یہ مثال کو حل کے طور پر پیش کرنے سے تمام تر اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اقلیتی نمائندوں اور رائے دہندگان کو مضبوط اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔